مشہور آخری الفاظ
ہمارے ملک کی ایک عام کہاوت، مشہور آخری الفاظ، کو عموماً مشکو ک انداز میں کہا جاتا تھا ، یہ ہمیں اپنی سانس کو تھامے رکھنے اور کسی یقینی مصیبت کے رونما ہونے کی اُمید کی تنبیہ کرتے ہیں ۔ لیکن بہت سے مرد اور خواتین ، سفر کرتے ہوئے اِس زیارت کو زندگی کے طور پر جان چُکے ہیں ، اِس کی تکمیل تک پہنچتے ہوئے ، ضابطہ اخلاق کو بے نقاب کرتے ہوئے اور ابدیت کا سامنا کرتے ہوئے ، بہت سے دلچسپ مشہور آخری الفاظ رکھتے ہیں ۔ کچھ پُر مسرت شادمانی میں رہ چُکے ہیں ، دیگر وحشت نال ڈر میں بات کر چُکے ہیں جیسے سنگدل فصل کاٹنے والا خود اپنے لیے آتا ہے ۔ موت! جو ہمارے منصوبوں ، خواہشات ، اِرادوں ، محرکات ، فلسفوں ، خیالی نمونوں ، وغیر ہ وغیرہ کا نا گزیر اختتام ہے ۔ سر تھامس سمتھ ، جو 1577 میں ملکہ الزبتھ اول کا سیکرٹری تھا اُس کے مرتے وقت الفاظ یہ دکھاتے ہیں کہ اِس زندگی کے لیے اکیلا رہنا بے بنیاد ہے : “یہ نوحہ کناں کرنے کا معاملہ ہے جسے لوگ اِس لیے نہیں جانتے کہ وہ دُنیا میں کسی خاتمے کے لیے پیدا ہوئے تھے جب تک وہ اِس میں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہو جاتے ۔” اِن مشہور آخری الفاظ کی تالیف پڑھنے والے کو موت کے بعد یقینی زندگی رکھنے کے لیے قائل کرنے کے لیے لکھے گئے ہیں ، اور یہ کہ کیسے خدا کے بیٹے ، یسوع مسیح میں ابدی زندگی کو حاصل کیا جا سکے گا ۔ جب آپ کے مرنے کی باری آتی ہے ، آپ ڈر جائیں گے ، یا آ پ کیتھرین بروتھ جو کہ جنرل ولیم بروتھ ، سالوشن آرمی کے بانی کی بیو ی ہے کے الفاظ کو رکھیں گے : ” پانی اُٹھ رہے ہیں ، لیکن میں ویسی ہی ہوں ۔ میں نیچے نہیں بلکہ اوپر جا رہی ہوں ۔ مرنے کے بارے فکر مند نہ ہوں ، اچھی طرح زندگی بسر کرنا جاری رکھیں ، اور مرنا بالکل درست ہو گا ” کیا آپ کی بادشا ہ ، صدر ، یا عظیم سیاسی راہنما بننے کی آرزو ہے ؟ لوئیس ایکس آئی وی ، جو فرانس کا بادشاہ ہے، 1715 میں اپنے بیٹے کے لیے کہے گئے الفاظ کا قیاس کیجیے : ” اے میرے بیٹے ، میں اپنی زندگی کو بہتر طور پر گزار چُکا ہوں ، منافع میری غلطیاں ہیں ، اور یاد رکھیے کہ یہ بادشاہ دوسرے آدمیوں کی مانند مر گیا” بادشاہ دوسرے آدمیوں کی طراح مرا !
سیورس (146۔ 211) تیسری صدی عیسوی کا رومی شہنشاہ ، اپنی زندگی کے لیے اِس بےاُمید جوڑ کو رکھتا تھا : ” میر ے پاس ہر چیز ہے ، اور ہر چیز کچھ نہیں ہے۔ ایک چھوٹا کوزہ اُس سب کا حامل ہو گا اُس ایک کے لیے جس کے لیے یہ ساری دُنیا بہت چھوٹی تھی ۔” خلیفہ عبد الرحمنٰ (961عیسوی) ، جو سپین کا سُلطان تھا ، اُس نےاپنی گرفت میں سے خوشیوں کو فرار ہونے جانے کی بد قسمتی کا تجربہ کیا تھا : “پچاس برس گُزر چُکے جب میں پہلا خلیفہ تھا ۔ امارت ، عزت ، خوشیاں ، میں نے سب سے لطف اُٹھایا ہے ۔ اِس ظاہری خوشی کے طویل عرصے میں ، میں اُن ایام کا شمار کر چُکا ہوں جن پر میں درحقیقت خوش ہوا وہ چودہ تھے !” اِس کا تصور کیجیے ! 50 سالوں میں ایک حکمران کے طور پر ، صرف 14 دن خوشیوں میں صَرف کیے تھے ۔ شاید آپ خدا کو نہ ماننے والوں یا لا ارادیت کے فلسفے کا تعاقب کر رہے ہیں ۔ اِن میں سے بہت سے فرقے یہ اعلان کرتے ہوئے خدا کے سامنے اپنی زندگیوں کی ذمہ داری سے بچنا پسند کریں گے کہ وہ وجو د ہی نہیں رکھتا۔ وہ اِس حقیقت کے لیے اپنے آ پ کو “جان بوجھتے ہوئے نا واقف ” بنا چُکے ہیں کہ ” خداوندکے کہنے پر آسمان پیدا ہوئے ، اور اِن کے سب میزبان اُس کے منہ کی سانس سے ۔ “(زبور 33: 6 )ایک مرتبہ ایسا انسان ولٹیئرتھا جو کہ 19 ویں صدی کا مشہور فرانسیسی فلاسفر اور بے دین (کافر) تھا ۔ مسیح کے لیے ، اُس نے ایک مرتبہ کہا : ” کم بخت لعنت۔” اُس نے ایک مرتبہ شیخی ماری ،” 20 سالوں بعد مسیحیت مزید نہیں ہو گی ۔ میرا ایک ہی ہاتھ باراہ رسولوں کو لیتے ہوئے اِس کی بڑی عمارت کو تباہ کردے گا ۔” اُس کا خاتمہ بہت وحشت ناک ہوا : ” میں خدا اور انسان کے ہاتھ سے دستبردار ہوا ہوں ! میں تُمیں اُس کا نصف دونگا جو میرے پاس ہے اگر تُو مجھے چھ ماہ کے لیے زندگی دے گا ، تب میں آسمان پر جاونگا او ر تُو میرے ساتھ چلے گا ! مسیح ، او یسوع مسیح !” بد قسمتی سے ، اُس کی دلکشی کا دن بہت لمبا ماضی تھا ۔ تھامس پینی مشہور و معررف امریکی محب الوطن اور کافر تھا جو کہ گستاخانہ اور بائبل مخالف کتاب بعنوان “وجہ کا دور” کا مصنف تھا ۔ اُس نے بھی ایسے ہی خوفناک خاتمے کو دکھایا :” میں دُنیائیں دونگا ، اگر میں اُنہیں رکھتا ، یہ کہ اِس وجہ کے دور کی کتاب کو شائع نہیں کیا گیا تھا ۔ اے خداوند میری مدد کر ! اے مسیح میری مدد کر !اے خداوند اتنی زیادہ اذیت کے لیے میں نے کیا کِیا ہے ؟ لیکن یہاں خدا نہیں ہے ! لیکن اگر یہاں ہونا چاہیے تو ، میرا کیا بنے گا ؟ خدا کے لیے میرے ساتھ رہیے ! یہاں تک کہ کسی بچے کو میرے ساتھ رُکنے کے لیے بھیج دیں ، کیونکہ یہ جہنم ہے جو اکیلی ہے ۔ اگر کبھی ابلیس ایجنٹ تھا ، تو مجھے وہ ایک ہونا تھا ۔” یہاں تک کہ خدا کے کچھ خادم ، جن پر اِس زندگی کی حد بندی ہے ، وہاپنی زندگی کی فائدہ مندی کے لیے سوال کر چُکے ہیں ۔ تھامس ولسے ، رومن کیتھولک کارڈینل اور ہنری ہششتم کے دورِ حکومت کے دوران ملکی نمائندہ ، وہ موت کے بستر پر اِس رائے کو رکھتا تھا :” اگر میں نے اتنی سرگرمی سے خدا کی خدمت کی ہوتی جتنی میں نے بادشاہ کی خدمت ہے ، تو اُسے مجھے اِن خاکستری بالوں میں ہی ختم نہیں کرنا تھا ۔ لیکن یہ محض اجر ہے کہ میں اپنی اِس سرگرم درد کو حاصل کروں اور مطالعہ کروں کہ میں نے اُس کی خدمت کی تھی ، اور یہ میری خدمت خدا کے لیے نہیں تھی ، بلکہ صرف بادشاہ کی خوشی کے لیے تھی ۔ ” میتھیو ہنری کے آخری الفاظ کا ، جو ایک مشہور انگریزی ماہرِ الہیات ہے کے ساتھ ایسا کہتے ہوئیے موازنہ کیجیے :” خدا کی خدمت میں صَرف کی گئی زندگی ، اور اُس کے ساتھ شراکت میں ، بہت آرام دہ زندگی ہے جس کی کوئی ایک اِس موجودہ دُنیا میں راہنمائی حاصل کر سکتا ہے ” جوناتھن ایڈورڈ نے بھی ، جو اٹھارویں صدی کے وسط کا ممتاز تجدید مذہب کا حامی تھا ، بہت خوش تھا کہ اُس کا نمبر اونچا تھا ۔ اُس کے الفاظ یہ تھے : ” یسوع کہاں ہے ، میرا کبھی ناکام نہ ہونے والا دوست ؟”آخری مشہور الفاظ کچھ شہیدوں کی کہاوتوں کے بغیر مکمل نہیں ہونا تھا ، وہ جو مسیح خی خاطر اپنی زندگیاں دے چُکے ہیں ، جو اپنی زندگیوں کا شمار ا پنے لیے نہیں بلکہ سچائی اور خوشخبری کے لیے کرتے تھے۔
پولی کراپ ایک تھا ۔ اِس دوسری صدی کا شہید، جسے اُس کے شہر کے رومی حاکم نے حکم دیا تھا کہ باز آئے اور مسیح کے خلاف کفر بولے ، اُس کا یہ جواب تھا : ” چھیاسی سال میں نے مسیح خدمت کی ہے ، اور اُس نے میرے لیے کبھی ایک چھوٹی سی غلطی نہیں کی ، تو پھر کیسے میں اپنے بادشاہ اور نجات دہندہ کے خلاف کفر بول سکتا ہوں ؟ جیسے کہ اُسے چوب پر زندہ جلا دیا گیا تھا ، اُس نے کسی چیز کی پیشکش نہیں کی بلکہ اُسے رکھنے کے لیے ، اُسے بچانے کے لیے ، اور اُسے شہیدوں کے ساتھ ہونے کی اجازت دینے کے لیے خدا کی حمد تعریف کی ۔ ایک صدی بعد ، اینڈرونیکس نامی شخص ، کوڑے کھانے اور اپنے خونی زخموں کو نمک کے ساتھ رگڑتے ہوئے ، جنگلی حیوانوں کے سامنے پھینک دیا گیا اور پھر تلوار سے مار دیا گیا ۔ اُس کے آخری الفاظ : ” کیا آ پ بد ترین ہیں ، میں ایک مسیحی ہوں ، میری میری مدد ، میرا مدد کرنے والا ہے ، اور میں کبھی تمہارے دیوتاوں کی خدمت نہیں کرونگا ، نہ ہی میں تمہارے اختیار سے ڈرتا ہوں یا تمہارے مالک سے ، ایمیرو ون : اپنی مصیبتوں میں پہل کریں جیسے ہی آپ مسرور ہوتے ہیں ، اور ہر ذریعے کو استعمال کرتے ہیں جس سے آپ کی خباثت ایجاد ہو سکے ، اور آپ آخر پر پائیں گے میں اپنے تجزیہ سے ہلایا نہیں جاونگا ۔ “اِن کا موازنہ چرچ کے ایک ایذارسان کے خاتمے کے ساتھ کیجیے ۔ سٹیفن گارڈنر ، 16 ویں صدی میں ونچسٹر کا بشپ۔ اپنےدور کے کیتھولک حکمرانوں کے لیے یہ خون کا پیاسا اپنے ہونٹوں پر لعنت کے ساتھ ایک مہلک بیماری کے ساتھ مرا : ” میں نے پطرس کی طرح گناہ گیا ، لیکن میں اُس کی طرح رویا نہیں ۔ ” آخر کر ، ہم مسیح کے آخری الفاظ کو رکھتے ہیں ۔ صلیب پر ، اپنے ایذا دینے والوں کی مکمل معافی کے ساتھ ، اُس نے دعا کی : ” ا ے باپ ، اِن کو معاف کر ، کیونکہ اوہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں ۔ ” اپنے ساتھ صلیب پر ڈاکو کی توبہ کی پہچان کرتے ہوئے ، اُس نے کہا : ” آج ہی تو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا ۔” خدا کی کامل مرضی کو پورا کرتے ہوئے ، وہ فتح مندی سے چِلایا : ” تمام ہوا ” اپنے باپ کے لیے ، مکمل بھروسے اور محبت کے ساتھ وہ چِلایا : ” اے باپ میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں ۔” پڑھنے والے دوست ، آپ کی ساری نجات کو 2000 سال قبل اِس ناہموار صلیب پر سے خرید لیا گیا تھا ۔ لیکن ، آپ کی زندگی کس سمت بڑھ رہی ہے ؟ اگر آپ کی عمر 70، 80 یا 90 سال ہوتی ہے ، تو اِ س سے کیا فائدہ ہو گا اگر تُو ساری دُنیا حاصل کرے ، لیکن اپنی جان کو ہی کھو دے ؟ یسوع مسیح اب آپ کے دل کو کھنچ رہا ہے ۔ کیا آج آپ اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کریں گے ، اور اُس کی مرضی بجا لانے کے لیے اپنی زندگی کو حوالے نہیں کریں گے ؟ کیا آپ اِس دن اور اِس کے بعد آنے والے دنوں میں اپنی زندگی پر اُس کو حکمرانی کرنے نہیں دیں گے؟ صرف یہی زندگی ہے جو آپ کو سلامتی دے سکتی ہے ، کیونکہ ” میرے خدا نے کہا ،شریر کے لیے سلامتی نہیں ہے ۔ “(یسعیاہ 57 : 21)” کیونکہ خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔ “( یوحنا 3 : 16)۔
خداوند آپ سے محبت رکھتا اور اُن کے ساتھ ابدی زندگی کا وعدہ کرتا ہے جو اُس کے پاس آتے ہیں ۔ آج اپنی زندگی اُسے دیجیے !
You can find equivalent English tract @